Mere Student bhaio, ye aik acha mooqa ha Participate kar k dekh lain mujhe omeed ha ka kich na kuch faida to higa hii lets see. Prizes are also pretty decent.
Student konn hey yahaen paa ?
میں پڑھ رہا ہو
خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں اگر کوئی غیر ملکی شہری سب سے زیادہ مشہور تھا تو وہ یہ صاحب تھے بڑی جسامت والے اسی جسامت کو دیکھتے ہوئے اور پی ڈی ایم کے ساتھ تسلسل سے ہونی والی ان کی ملاقاتوں کی وجہ سے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ نے ان کو خوب گالیاں دی تھی اور ایک جانور سے تشبیہ دیتے رہے یہاں تک کہ امریکی سفارت خانے بند کرنے یا اور ان کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کرنے یا پھر کم از کم اس شحص کو ملک بدر کرنے کیلئے کمپین چلائی گئی لیکن افسوس اس پر عمل نا ہوسکا لیکن افسوس قسمت کی ستم ظریفی دیکھے آج اسی شحص کے ساتھ خان صاحب کے قابل اعتماد اتحادی پرویز الہٰی نے خوشگوار موڈ میں آمنے سامنے بیٹھ کر ملاقات کی
اب باتیں کیا ہوئی اور فیصلے کیا ہوئے یہ تو ہم آج سے شاید دس سال بعد کسی ریٹائر سرکاری افسر کی کتاب میں پڑھے گے لیکن ایک چیز ابھی واضح ہوگئی کہ تحریک انصاف میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنے بیانیے کا بوجھ سنبھال سکے یہی حال نون لیگ کا ہوا تھا ووٹ کو عزت دینے کا کہہ کر بوٹ کو عزت دے گئے جبکہ زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے کا کہہ کر خود بھاگ گئے تھے جبکہ فضل الرحمان اگر جذبات میں باقیوں کی طرح بہہ کر کوئی سخت بعد کردے تو اپنے بیرون ملک کچھ لوگوں کے تعلقات کی وجہ سے معافی تلافی کروالیتے ہیں
یہ تمام جماعتیں اور اس جیسی دوسری ایم کیو ایم ہو یا اے این پی کسی نا کسی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی گود میں کھیلتی رہی ہے اور پلتی بڑھتی رہی ہے یہی وجہ ہے ان کے میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جانے کی ہمت ہی نہیں دونوں طرف ہی ایسے راز ہے جو برباد کرسکتے ہیں
شہباز گل کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے جس طرح کے بیانات آئے ہیں اور آج کی ملاقات نے آزادی کے بیانیہ کو بے حد کمزور کرکے رکھ دیا ہے اور لاہور میں ہونے والے جلسے جس میں ہاکی اسٹیڈیم کی کروڑوں ڈالر کی بچھائی گئی ٹرف کو اکھاڑا جانا جلسے کیلئے کیا یہ سرکاری وسائل کا غلط استعمال نہیں ہے
ویسے لاہور کا جلسہ اہم ہے تحریک انصاف کے آئیندہ کے لائحہ عمل کیلئے دیکھنا یہ ہے کہ کیا خان صاحب اس دفعہ کس طرف جاتے ہیں
کچھ اسی طرح کی صورتحال ایک دفعہ جماعت اسلامی کے ساتھ پیش آئی تھی جب مرحوم سید منور حسن کے بیان نے فوج کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور جماعت اسلامی کو بیان واپس لینے پر مجبور کیا گیا تھا لیکن جماعت اسلامی ڈٹ گئی تھی اور اس کا بدلہ جس طرح لیا گیا تھا الیکشن میں سب نے دیکھا حالانکہ جماعت اسلامی کے ساتھ تو اس بیان کے سپورٹ میں عوام بھی نا تھی جبکہ خان صاحب کو کم از کم اس ایک چیز پر تو برتری حاصل ہے
اس ملک کی حکمران پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی صرف اتنی سی کہانی ہے
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی