Faisal bahi fasial bahi sorry kuin kar rahien hai meny note keya hai k galti ho ya na ho AP dono kamon me sorry ke pehal phely karty hain . Is Sy ye bat sabit Hoti hai AP ka Dil bhot naram hai.
Mujy AP ke bat bhot ashi lagai ka jab b AP ko pata chal jata hai k ye bat Yan Kam Galt hai to AP fori Tarak kar dety ho ,han Tarak karny ke waja Dil me Allah ka dar ho asa he hai na AP Allah k dar Ke waja sy he fori Tarak or sorry karty ho,To bahi AP Khush qismat ho , ye moman ke nashaniyon me Sy aik nashni hai ka jab moman ko pata chalta hai k ye me gona kar raha Hun os k dil me fori allah ka dar ata hai or wo Toba karta hain .
Thanks a ko for your kinds words dear khuda apko orr mujhyy isi trha kamyambi ta frmay. Or dono ky iman ko mazbiot frmain. Acha wo hm neend my sony ky bary mai baat kr rhy thy or apni last post my kaha tha ky i have asked som other persons bout this topic and at the end what i got is the following tashreeh according to which ihave these conclusions:
1: khuda jis ko chahy usko utni taqat dy, or lhuda hr cheez pr qadir bi to hai.
2: jb hm mr jaty hain tb hamara jism ya phr jisy lash kah skty hain wo dosro ki batain sun skti hai jbky hamari soul ya rooh to qavz kr li jati hai. Yeh sb khuda ki dain hai ya phr qudrat hai.
3: so hm exact koi answer to maloom mhi kr skty ky ky ku insan doran e need hrqat kr skty hain.
Yeh tashreeq mujhy whatsapp pr forward howi hain.
سورۃ الزمر
آیت نمبر: 42
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
ترجمہ:
اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
تفسیر:
1۔ اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا ....: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آدمی کی جان موت کے وقت بھی قبض کرتا ہے اور نیند کے وقت بھی۔ گویا نیند بھی ایک طرح کی موت ہے، مگر اس میں روح قبض ہونے کے باوجود جسم کے ساتھ اس کا ایسا تعلق باقی رہتا ہے جس سے نبض چلتی، کھانا ہضم ہوتا اور سانس جاری رہتا ہے۔ اس تعلق کی پوری حقیقت ہم نہیں جانتے، کیونکہ روح کے معاملات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، فرمایا : ﴿وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۸۵ ] ’’اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔‘‘ مگر اس کی ایک ادنیٰ سی مثال، جو پوری مثال نہیں ہے، بجلی کا کرنٹ ہے کہ اس کا مرکز کسی جگہ ہوتا ہے مگر ہزاروں میل دور اس کا تعلق کسی اور چیز سے بھی ہوتا ہے، جیسے ریڈیو، ٹیلی وژن، ریموٹ وغیرہ۔ اس سے عذاب قبر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ موت کے بعد روح قبض ہونے کے باوجود اس کا جسم کے ساتھ اللہ کے حکم سے کوئی ایسا تعلق رہتا ہے کہ اس پر قبر میں عذاب و ثواب کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، انسان اپنے ناقص علم کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے بعض لوگوں نے عذاب قبر کا انکار ہی کر دیا، حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے صاف دلائل موجود ہیں اور مومن کا کام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہر حال میں مانے، خواہ اس کی کیفیت اسے بتائی جائے یا نہ بتائی جائے۔
2۔ نیند کی حالت میں جان قبض ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر موت کا لفظ استعمال فرمایا، اگرچہ یہ بڑی اور آخری موت سے پہلے موت کی ایک قسم ہے، جو زندگی میں آدمی پر بار بار آتی اور جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَ يَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ﴾ [ الأنعام : ۶۰ ] ’’اور وہی ہے جو تمھیں رات کو قبض کر لیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کمایا۔‘‘ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِهِ قَالَ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَ أَحْيَا وَ إِذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ إِلَيْهِ النُّشُوْرُ )) [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : ۶۳۱۲ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر جاتے توکہتے : ’’تیرے ہی نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔‘‘ اور جب بیدار ہوتے توکہتے : ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں زندگی بخشی، اس کے بعد کہ اس نے ہمیں موت دی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘
3۔ بعض اہلِ علم نے یہاں روح کی دو قسمیں بنائی ہیں، ایک روح حیوانی اور ایک روح نفسانی اور بعض نے نفس کو الگ اور روح کو الگ قرار دیا ہے، مگر یہ بات قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ جس طرح قرآن مجید میں نیند کے وقت نفسوں کو قبض کرنے کا ذکر ہے اسی طرح بخاری، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد وغیرہ میں نیند کے وقت ارواح کو قبض کرنے کا ذکر ہے۔ چنانچہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضی اللہ عنھم کے رات کے سفر کے دوران سو جانے کا اور سورج نکلنے کے بعد بیدار ہونے کا ذکر کیا ہے، اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِيْنَ شَاءَ، وَ رَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِيْنَ شَاءَ)) [بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب الأذان بعد ذھاب الوقت : ۵۹۵ ] ’’اللہ تعالیٰ نے تمھاری ارواح کو قبض کر لیا جب چاہا اور انھیں تمھیں واپس کر دیا جب چاہا۔‘‘ اس بحث سے معلوم ہوا نیند کے وقت قبض ہونے والی چیز نفس بھی کہلاتی ہے اور روح بھی۔
4۔ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰى اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى : مقرر وقت سے مراد بڑی اور آخری موت ہے۔
5۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ: غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں، جن میں سب سے پہلی تو اللہ کا وحدہ لا شریک لہ ہونا ہے کہ موت و حیات اور سلانے اور جگانے کا سلسلہ صرف اس کے ہاتھ میں ہے، اگر اس کا کوئی شریک ہوتا تو یہ اختیار یا اس کا کچھ حصہ اس کے پاس بھی ہوتا، اس لیے ہر طرح کی عبادت کا حق دار اللہ تعالیٰ ہے، یہی دلیل اللہ کے خلیل علیہ السلام نے پیش فرمائی تھی : ﴿ رَبِّيَ الَّذِيْ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۸ ] ’’میرا رب وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے۔‘‘ دوسری نشانی یہ ہے کہ جو پروردگار ہر روز موت دیتا ہے اور مرنے کے بعد زندگی عطا کرتا ہے وہ قیامت کے دن بھی تمام مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور یقیناً انھیں زندہ کرے گا اور وہی اکیلا سب کا فیصلہ کرے گا، کوئی اس کی مرضی کے بغیر سفارش بھی نہیں کر سکے گا، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔